تفسير ابن كثير



سورۃ الكهف

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا[92] حَتَّى إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِنْ دُونِهِمَا قَوْمًا لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ قَوْلًا[93] قَالُوا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَى أَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا[94] قَالَ مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا[95] آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ حَتَّى إِذَا سَاوَى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوا حَتَّى إِذَا جَعَلَهُ نَارًا قَالَ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا[96]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پھر وہ کچھ اور سامان ساتھ لے کر چلا۔ [92] یہاں تک کہ جب وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا تو ان کے اس طرف کچھ لوگوں کو پایا جو قریب نہ تھے کہ کوئی بات سمجھیں۔ [93] انھوں نے کہا اے ذوالقرنین! بے شک یاجوج اور ماجوج اس سرزمین میں فساد کرنے والے ہیں، تو کیا ہم تیرے لیے کچھ آمدنی طے کر دیں، اس (شرط) پر کہ تو ہمارے درمیان اور ان کے درمیان ایک دیوار بنادے۔ [94] اس نے کہا جن چیزوں میں میرے رب نے مجھے اقتدار بخشا ہے وہ بہتر ہیں، اس لیے تم قوت کے ساتھ میری مدد کرو کہ میں تمھارے درمیان اور ان کے درمیان ایک موٹی دیوار بنا دوں۔ [95] تم میرے پاس لوہے کے بڑے بڑے ٹکڑے لائو، یہاں تک کہ جب اس نے دونوں پہاڑوں کا درمیانی حصہ برابر کر دیا تو کہا ’’دھونکو‘‘ یہاں تک کہ جب اس نے اسے آگ بنا دیا تو کہا لائو میرے پاس کہ میں اس پر پگھلا ہوا تانبا انڈیل دوں۔ [96]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] وه پھر ایک سفر کے سامان میں لگا [92] یہاں تک کہ جب دو دیواروں کے درمیان پہنچا ان دونوں کے پرے اس نے ایک ایسی قوم پائی جو بات سمجھنے کے قریب بھی نہ تھی [93] انہوں نے کہا اے ذوالقرنین! یاجوج ماجوج اس ملک میں (بڑے بھاری) فسادی ہیں، تو کیا ہم آپ کے لئے کچھ خرچ کا انتظام کر دیں؟ (اس شرط پر کہ) آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنادیں [94] اس نے جواب دیا کہ میرے اختیار میں میرے پروردگار نے جو دے رکھا ہے وہی بہتر ہے، تم صرف قوت طاقت سے میری مدد کرو [95] میں تم میں اور ان میں مضبوط حجاب بنا دیتا ہوں۔ مجھے لوہے کی چادریں ﻻ دو۔ یہاں تک کہ جب ان دونوں پہاڑوں کے درمیان دیوار برابر کر دی تو حکم دیا کہ آگ تیز جلاؤ تاوقتیکہ لوہے کی ان چادروں کو بالکل آگ کر دیا، تو فرمایا میرے پاس ﻻؤ اس پر پگھلا ہوا تانبا ڈال دوں [96]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] پھر اس نے ایک اور سامان کیا [92] یہاں تک کہ دو دیواروں کے درمیان پہنچا تو دیکھا کہ ان کے اس طرف کچھ لوگ ہیں کہ بات کو سمجھ نہیں سکتے [93] ان لوگوں نے کہا ذوالقرنین! یاجوج اور ماجوج زمین میں فساد کرتے رہتے ہیں بھلا ہم آپ کے لئے خرچ (کا انتظام) کردیں کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار کھینچ دیں [94] ذوالقرنین نے کہا کہ خرچ کا جو مقدور خدا نے مجھے بخشا ہے وہ بہت اچھا ہے۔ تم مجھے قوت (بازو) سے مدد دو۔ میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط اوٹ بنا دوں گا [95] تو تم لوہے کے (بڑے بڑے) تختے لاؤ (چنانچہ کام جاری کردیا گیا) یہاں تک کہ جب اس نے دونوں پہاڑوں کے درمیان (کا حصہ) برابر کر دیا۔ اور کہا کہ (اب اسے) دھونکو۔ یہاں تک کہ جب اس کو (دھونک دھونک) کر آگ کر دیا تو کہا کہ (اب) میرے پاس تانبہ لاؤ اس پر پگھلا کر ڈال دوں [96]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 92، 93، 94، 95، 96،

یاجوج ماجوج ٭٭

اپنے شرقی سفر کو ختم کر کے پھر ذوالقرنین وہیں مشرق کی طرف ایک راہ چلے۔ دیکھا کہ دو پہاڑ ہیں جو ملے ہوئے ہیں لیکن ان کے درمیان ایک گھاٹی ہے، جہاں سے یاجوج ماجوج نکل کر ترکوں پر تباہی ڈالا کرتے ہیں، انہیں قتل کرتے ہیں، کھیت باغات تباہ کرتے ہیں، بال بچوں کو بھی ہلاک کرتے ہیں اور سخت فساد برپا کرتے رہتے ہیں۔ یاجوج ماجوج بھی انسان ہیں جیسے کہ بخاری و مسلم کی حدیث سے ثابت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، اللہ عزوجل آدم علیہ السلام سے فرمائے گا کہ اے آدم! آپ لبیک وسعدیک کے ساتھ جواب دیں گے، حکم ہو گا آگ کا حصہ الگ کر، پوچھیں گے کتنا حصہ؟ حکم ہو گا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے دوزخ میں اور ایک جنت میں۔ یہی وہ وقت ہو گا کہ بچے بوڑھے ہو جائیں گے اور ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا۔ پھر حضور علیہ السلام نے فرمایا تم میں دو امتیں ہیں کہ وہ جن میں ہوں انہیں کثرت کو پہنچا دیتی ہیں یعنی یاجوج ماجوج۔ [صحیح بخاری:6530] ‏‏‏‏
4986

امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم میں ایک عجیب بات لکھی ہے وہ لکھتے ہیں کہ آدم علیہ السلام کے خاص پانی کے چند قطرے جو مٹی میں گرے تھے، انہی سے یاجوج ماجوج پیدا کئے گئے ہیں۔ گویا وہ حواء اور آدم علیہ السلام کی نسل سے نہیں بلکہ صرف نسل آدم علیہ السلام سے ہیں۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہ قول بالکل ہی غریب ہے نہ اس پر عقلی دلیل ہے نہ نقلی اور ایسی باتیں جو اہل کتاب سے پہنچتی ہیں، وہ ماننے کے قابل نہیں ہوتیں۔ بلکہ ان کے ہاں کے ایسے قصے ملاوٹی اور بناوٹی ہوتے ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

مسند احمد میں حدیث ہے کہ نوح علیہ السلام کے تین لڑکے تھے سام، حام اور یافث۔ سام کی نسل سے کل عرب ہیں اور حام کی نسل سے کل حبشی ہیں اور یافث کی نسل سے کل ترک ہیں۔ بعض علماء کا قول ہے کہ یاجوج ماجوج ترکوں کے اس جد اعلیٰ یافث کی ہی اولاد ہیں، انہیں ترک اس لیے کہا گیا ہے کہ انہیں بوجہ ان کے فساد اور شرارت کے انسانوں کی دیگر آبادی کے پس پشت پہاڑوں کی آڑ میں چھوڑ دیا گیا تھا۔
4987

امام ابن جریر رحمہ اللہ نے ذوالقرنین کے سفر کے متعلق اور اس دیوار کے بنانے کے متعلق اور یاجوج ماجوج کے جسموں، ان کی شکلوں اور ان کے کانوں وغیرہ کے متعلق وہب بن منبہ سے ایک بہت لمبا چوڑا واقعہ اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے جو علاوہ عجیب و غریب ہونے کے صحت سے دور ہے۔ ابن ابی حاتم میں بھی ایسے بہت سے واقعات درج ہیں لیکن سب غریب اور غیر صحیح ہیں۔ ان پہاڑوں کے درے میں ذوالقرنین نے انسانوں کی ایک آبادی پائی جو بوجہ دنیا کے دیگر لوگوں سے دوری کے اور ان کی اپنی مخصوص زبان کے اوروں کی بات بھی تقریبا نہیں سمجھ سکتے تھے۔ ان لوگوں نے ذوالقرنین کی قوت وطاقت، عقل و ہنر کو دیکھ کر درخواست کی کہ اگر آپ رضا مند ہوں تو ہم آپ کے لیے بہت سا مال جمع کر دیں اور آپ ان پہاڑوں کے درمیان کی گھاٹی کو کسی مضبوط دیوار سے بند کر دیں تاکہ ہم ان فسادیوں کی روزمرہ کی ان تکالیف سے بچ جائیں۔ اس کے جواب میں ذوالقرنین نے فرمایا، مجھے تمہارے مال کی ضرورت نہیں اللہ کا دیا سب کچھ میرے پاس موجود ہے اور وہ تمہارے مال سے بہت بہتر ہے۔ یہی جواب سلیمان علیہ السلام کی طرف سے ملکہ سبا کے قاصدوں کو دیا گیا تھا «أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِيَ اللَّـهُ خَيْرٌ مِّمَّا آتَاكُم بَلْ أَنتُم بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ» [ 27-النمل: 36 ] ‏‏‏‏۔ ذوالقرنین نے اپنے اس جواب کے بعد فرمایا کہ ہاں تم اپنی قوت وطاقت اور کام کاج سے میرا ساتھ دو تو میں تم میں اور ان میں ایک مضبوط دیوار کھڑی کر دیتا ہوں۔ زبر جمع ہے زبرۃ کی۔ ذوالقرنین فرماتے ہیں کہ لوہے کے ٹکڑے اینٹوں کی طرح کے میرے پاس لاؤ۔ جب یہ ٹکڑے جمع ہو گئے تو آپ نے دیوار بنانی شروع کرا دی اور وہ لمبائی چوڑائی میں اتنی ہو گئی کہ تمام جگہ گھر گئی اور پہاڑ کی چوٹی کے برابر پہنچ گئی۔ اس کے طول و عرض اور موٹائی کی ناپ میں بہت سے مختلف اقوال ہیں۔
4988

جب یہ دیوار بالکل بن گئی تو حکم دیا کہ اب اس کے چاروں طرف آگ بھڑکاؤ۔ جب وہ لوہے کی دیوار بالکل انگارے جیسی سرخ ہو گئی تو حکم دیا کہ اب پگھلا ہوا تانبا لاؤ اور ہر طرف سے اس کے اوپر بہا دو چنانچہ یہ بھی کیا گیا۔ پس ٹھنڈی ہو کر یہ دیوار بہت ہی مضبوط اور پختہ ہو گئی اور دیکھنے میں ایسی معلوم ہونے لگی جیسے کوئی دھاری دار چادر ہو۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے وہ دیوار دیکھی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیسی ہے؟ اس نے کہا دھاری دار چادر جیسی، جس میں سرخ و سیاہ دھاریاں ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے [تفسیر ابن جریر الطبری:23340:مرسل] ‏‏‏‏ لیکن یہ روایت مرسل ہے۔ خلیفہ واثق نے اپنے زمانے میں اپنے امیروں کو ایک وافر لشکر اور بہت سا سامان دے کر روانہ کیا تھا کہ وہ اس دیوار کی خبر لائیں۔ یہ لشکر دو سال سے زیادہ سفر میں رہا اور ملک در ملک پھرتا ہوا آخر اس دیوار تک پہنچا، دیکھا کہ لوہے اور تانبے کی دیوار ہے۔ اس میں ایک بہت بڑا نہایت پختہ عظیم الشان دروازہ بھی اسی کا ہے جس پر منوں کے وزنی قفل لگے ہوئے ہیں اور جو مال مسالہ دیوار کا بچا ہوا ہے، وہ وہیں پر ایک برج میں رکھا ہوا ہے جہاں پہرہ چوکی مقرر ہے۔ دیوار بے حد بلند ہے کتنی ہی کوشش کی جائے لیکن اس پر چڑھنا ناممکن ہے۔ اس سے ملا ہوا پہاڑیوں کا سلسلہ دونوں طرف برابر چلا گیا ہے اور بھی بہت سے عجائب وغرائب امور دیکھے جو انہوں نے واپس آ کر خلیفہ کی خدمت میں عرض کئے۔
4989



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.